سمجھ میں یہ نہیں آیا،
مگر احساس ہے دِل میں۔
یہ شفا جو پائی ہے،
اندھیرے میں ہے نور۔
مُجھے معاف کیا۔
مِٹا دیے میرے قُصور۔
بس چاہیے تھوڑا سا اِیماں۔
یہ کیسے ہُوا
کہ مُجھ سے بِھکاری کو
جو پیار وہ دے محسُوس کرُوں
جو کھولے آنکھ آزادی دے؟
کیسے یہ اُمید
میری جاں میں ہے بسی؟
فضل کے مگر میں قابِل نہیں،
مِلے گی شِفا مجھے ہے یقیں۔
یہ کیسے ہُوا؟ یہ کیسے ہُوا؟ ہاں آں
سَر اپنا اُٹھایا ہے۔
جو سہارا ہے مُنجّی
صحراؤں سے پہاڑوں تلک،
بھرتا ہے امن کی مہک۔
کِتنا ہے شاندار،
ہوں نور کا شُکرگُزار۔
کرے روشن ظلمت کی رات۔
یہ کیسے ہُوا
کہ مُجھ سے بِھکاری کو
جو پیار وہ دے محسُوس کرُوں
جوکھولے آنکھ آزادی دے؟
کیسے یہ اُمید
میری جاں میں ہے بسی؟
فضل کے مگر میں قابِل نہیں،
مِلے گی شِفا مجھے ہے یقیں۔
یہ کیسے ہُوا؟ یہ کیسے ہُوا؟ ہُو ہُو ہُو۔
یہ کیسے ہُوا
کہ مُجھ سے بِھکاری کو
جو پیار وہ دے محسُوس کرُوں
جوکھولے آنکھ آزادی دے؟
کیسے یہ اُمید
میری جاں میں ہے بسی؟
فضل کے مگر میں قابِل نہیں،
مِلے گی شِفا مجھے ہے یقیں۔
یہ کیسے ہُوا؟ یہ کیسے ہُوا؟